قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں شامل کرنیکی منظوری اور 1984 کا عدالتی فیصلہ


قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں  شامل کرنیکی منظوری اور 1984 کا عدالتی فیصلہ
روزنامہ 92 نیوز کے مطابق وفاقی کابینہ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں بطور غیرمسلم شامل کرنیکی اصولی منظوری دیدی۔ اور اس طرح ان کو وہ سب اقلیتی حقوق مل گئے جو باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں..( یعنی اپنی مرضی کی عبات ، مرضی کی عبادت گاہ وغیرہ کا حق) قادیانیوں نے شروع دن سے یہی اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی تھی لیکن ھر بار ناکام رہے مگر دو دن پہلے حکومت نے ان کا وہ دیرینہ مطالبہ خاموشی سے تسلیم کر لیا.. پیچھے چلتے ہیں.. بہت پیچھے... رولا کیا ھے اور کس چیز کا ھے... قادیانی پہلے دن سے خود کو اقلیت تسلیم کرکے اپنے اقلیتی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان کو اقلیتی حقوق نہیں دیے جا رہے... ان کے اقلیتی حقوق آخر ہیں کیا اور کیوں نہیں دیے جا رہے؟ جبکہ باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں.... یہ فلم بہت دلچسپ ھے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو پوری تحریر غور سے پڑھنا ھوگی... قادیانیوں کو کافر یعنی غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا لیکن ایک چیز رہ گئی تھی جسے ھمارے بھولے بھالے پی ٹی آئی کے نوجوان بچے بھٹو کی غلطی کہتے ہیں لیکن وہ بھٹو کی غلطی نہیں تھی بھٹو نے بالکل درست کیا تھا... وہ چیز جو رہ گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان کو غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا تھا لیکن ان کا مذھب کیا ھوگا؟ ان کی عبادت کیسے ھوگی؟ ان کی عبادت گاہ میں بلانے کا طریقہ کیا ھوگا؟ ان کی دینی کتاب کون سی ھوگی؟ اور ان کی عبادت گاہ کا نام کیا ھوگا؟ یہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے یہ چیز آنے والے وقت پر چھوڑ دی لیکن یہ حکم تھا کہ وہ اپنی عبادتیں اور عباتگاہیں مسلمانوں جیسی نہیں کریں گے تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ کھا کر ان کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھیں... نہ یہ سرعام ھمارا کلمہ پڑھ سکتے تھے نہ یہ اذان دے سکتے تھے نہ کلمہ لکھ سکتے تھے نہ ہی قرآن پاک کو پکڑ سکتے تھے نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد لکھ سکتے تھے.... کافر قرار دینے سے پہلے یہ ھماری نماز پڑھتے تھے ھمارے قرآن کو اپنی کتاب کہتے تھے ھمارے روزے جیسے روزے رکھتے تھے ھماری مسجد جیسی مسجد ھوتی تھی جسے یہ مسجد کہتے تھے لیکن کافر قرار دینے کے بعد اب سب کچھ بدل گیا تھا... اب ان کو چاہیے تھا کہ ھمارے دین کی جان چھوڑ دیتے. ھماری نماز بھی چھوڑ دیتے ھمارے قرآن کو بھی چھوڑ دیتے ھماری مساجد کی جان بھی چھوڑ دیتے یہ اپنا نیا نبی بناتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی نئی کتاب ایجاد کر لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ اذان ایجاد کر لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ طرح کی عبادت بنا لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ عبادت گاہ بنا لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا... یہ ان کے لیے بہت سخت سزا تھی. یہ معاملہ ان کے لیے موت کے جیسا تھا. یہ سرعام دوسرے مذاھب کی طرح عبادت کرنا چاھتے تھے روزے رکھنا چاھتے تھے اذانیں دینا چاھتے تھے. لیکن جب سے کافر قرار دے دیے گئے تھے تب سے یہ سب بند ھو گیا تھا. پولیس ان کے علاقوں میں گشت لگانے لگی. ان کے گھروں مکانوں دفتروں اسکولوں اور عبادت گاہوں سے کلمہ طیبہ اور اللہ کا نام مٹایا جانے لگا جہاں جہاں سے بھی شک پڑتا کہ یہ مسلمان شو ھوتے ہیں وہ نشان مٹا دیے گئے اگر کوئی قادیانی کلمہ پڑھتا پکڑا جاتا تو پولیس اسے حوالات میں ڈال دیتی اذان دینے کی کوشش کرتے یا سرعام پہلے کی طرح نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تو پولیس ان کو اٹھا کر جیل بھیج دیتی رفتہ رفتہ ان کی زندگیوں سے اسلام نکال دیا گیا. . قادیانیوں کے لیے یہ سب کسی طرح قابل قبول نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک آپشن تھا کہ قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام کی طرف لوٹ آتے لیکن بدقسمتی سے وہ اس طرف بھی نہیں آتے تھے.. پولیس آج بھی کسی قادیانی کو اذان دیتے یا تلاوت کرتے پکڑ لے تو اسے سیدھا جیل بھجوا دیتی ھے... سنہ 73 سے لیکر 1984 تک گیارہ سال گزر گئے قادیانی اس دوران کوشش کرتے رھے کہ ھمیں اقلیت ہی سمجھ لیا جائے کافر ہی سمجھ لیا جائے لیکن ھمیں دوسرے غیر مسلموں کے برابر حقوق دیے جائیں ان کی طرح سرعام عبادت کا موقع دیا جائے اور یہ ھو نہیں سکتا تھا ان کو ھر جگہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا. سنہ 1984 انہوں نے خود کو اقلیت منوانے اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کر لیا... عدالت نے بتایا کیونکہ یہ مذھبی معاملہ ھے اسے شرعی عدالت میں لے جایا جائے... چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کر دی گئی. اس کا حوالہ نمبر یہ ھے ۔ شریعت درخواست نمبری 17/ آئی 1984 شریعت درخواست نمبری 2 ایل 1984 یہ درخواست دو قادیانی افراد کی طرف سے تھی. جن کے نام یہ ہیں. 1.مجیب الرحمن وغیرہ بنام وفاقی حکومت.... 2. ریٹائرڈ عبدالواجد وغیرہ بنام اٹارنی جنرل پاکستان اس شرعی عدالت کے جو جج صاحبان کیس سن رھے تھے ان کے نام یہ ہیں.. جسٹس فخر عالم چیف جسٹس، چوہدری محمد صدیق جسٹس، مولانا ملک غلام علی جسٹس، مولانا عبدالقدوس قاسمی جسٹس کیس میں وکلاء کے علاوہ جن علماء نے وکلاء کی مدد کی ان کے نام یہ تھے. 1.قاضی مجیب الرحمن. 2.پروفیسر محمد احمد غازی 3. محمد صدرالدین الرافعی 4.علامہ تاج الدین حیدری . 5.پروفیسر محمد اشرف .6.علامہ مرزا محمد یوسف .7.پروفیسر محمد طاھر القادری مسلمانوں کی طرف سے پیش ھونے والے وکلاء کے یہ نام تھے. Haji Shaikh Ghias Muhammad Advocate. Mr. M.B. Zaman .Advocate . Dr. Syed Riazul Hassan. Gillani, Advocate. کیس میں قادیانیوں کا موقف تھا کیونکہ ھمیں اقلیت قرار دے دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ھمیں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی... انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ھر انسان کو اپنے مذھب پر چلنے اور مذھبی رسومات و عبادات کرنے کا حق حاصل ھوتا ھے. پاکستان کے اندر باقی سب اقلیتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن صرف قادیانیوں کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ ان کو پکڑ کر تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے... یہ قادیانیوں کی انتہائی خوفناک چال تھی. وہ اس درخواست میں خود کو غیر مسلم تو تسلیم کر رہے تھے لیکن بدلے میں جو کچھ مانگ رھے تھے وہ بہت خوفناک تھا. اگر ان کو اقلیتی حقوق کے تحت عبادت کی اجازت مل جاتی تو وہ صرف نام کے قادیانی رہ جاتے لیکن ان کو سبھی اجازتیں حاصل ھو جاتیں جن کے تحت وہ مسلمانوں کی طرح عبادات بھی کرتے مسجدیں بھی بناتے اور ھر وہ عبادت کرتے جو مسلمان کرتے ہیں.... قادیانیت کے حوالے سے ملکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ تھا جس میں بظاھر یہ لگ رہا تھا کہ مسلمان یہ مقدمہ ھار جائیں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے کسی مذھب قانون اور آئین میں نہیں لکھا ھوا کہ کسی شخص کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق نہیں دیا جائے.. خود پاکستان کے آئین و قانون اور اسلام میں بھی ھر شخص کو مرضی سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر بھی پابندی نہیں ھے. پھر اپنی عبادت گاہ کو اپنی مرضی کے نام سے بھی پکارنے کا حق ھے. مثلاً سکھ اپنا گردوارہ بنا سکتے ہیں اس کا نام گردوارہ رکھ سکتے ہیں. ھندو مندر بنا سکتے ہیں مندر کو مندر کہہ سکتے ہیں. عیسائی گرجا بنا سکتے ہیں اسے گرجا کہہ سکتے ہیں. لیکن قادیانیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی اپنی عنادتگاہ کو مسجد کہنے کی اجازت تھی.. کیس کی سماعت چلتی رہی کئی ماہ گزر گئے... دونوں جانب سے دلائل کے انبار لگا دیے گئے چھوٹے سے چھوٹے نقطے پر بحث کی گئی اور آخرکار شرعی عدالت نے 12 اگست 1984 کو مقدمے کا فیصلہ سنا دیا... 184 صفحات پر مشتمل فیصلے میں بہت ہی واضح الفاظ میں کہا گیا کہ قادیانی جھوٹے ہیں ان کو دوسرے مذاھب کی طرح کھلے عام عبادات کرنے اذان دینے قرآن پاک کی تلاوت کرنے مسجدیں بنانے کلمہ پڑھنے کلمہ لکھنے اور خود کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی... .. یہ قادیانیوں کی ایک بڑی شکست تھی.. قادیانی دوسری بار عدالت سے بھی کافر قرار دے دیے گئے تھے. اب وہ کسی اور موقعے کی تلاش میں تھے... یہ موقع اس فیصلے کے 29 سال بعد 2013 کو ان کے ھاتھ آتا ہے... 22 ستمبر سنہ 2013 کو پشاور میں ایک گرجا گھر پر حملہ ھوا جس میں کافی لوگ جاں بحق ھو گئے. اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا جس کا مقصد تھا کہ آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں اقلیتوں کے جان و مال اور عبادتگاھوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے. یہ قادیانیوں کے لیے ایک طرح سے لاٹری تھی. عاصمہ جہانگیر زندہ تھی اور ماحول بھی سازگار تھا. اس تین رکنی بینچ نے 19 جون سنہ 2014 کو فیصلہ دیا کہ ایک اقلیتی کمیشن قائم کیا جائے. فیصلے میں لکھا گیا " ھم سمجھتے ہیں کہ اگر مذھبی اقلیتوں کی عبادتگاھوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ھوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہو چکا ھوتا".. اس فیصلے کے کچھ دن بعد لاھور کے ایک بڑے ھوٹل میں عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی جانب سے ایک عوامی اسمبلی بلائی گئی جس میں تین سو کے قریب صحافی دانشور مزدور راھنما مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وکلا شامل تھے اس عوامی اسمبلی نے اقلیتی کمیشن کے قانون کا مسودہ تیار کیا. اس میں خاص طور پر عبادتگاھوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی وہ عبادتگاہیں جن کی پولیس نگرانی کرتی تھی کہ وہاں کوئی قانونی خلاف ورزی تو نہیں ھو رہی وہی پولیس اب ان کا تحفظ کرتی.. یہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتوں کی عبادات کی آزادی کے لیے قائم کیا گیا تھا... 2018 میں اگست کی دس تاریخ کو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر لاھور میں اقلیتوں کے ایک نمائندہ کنونشن میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا تھا کہ وہ فی الفور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بااختیار قومی کمیشن قائم کرے... یاد رھے کہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو رولز آف بزنس 1973 شیڈول 2، (12)34 کے تحت وزارت مذھبی امور کے حوالے کیا گیا تھا. کمیشن کی آخری ہیت اور نظرثانی شدہ ٹی او آرز کو 2014 میں ری نوٹیفائی کیا گیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلے کی ھدایت پر کمیشن کو ایک بار پھر تین سال کے لئے نوٹیفائی کیا تھا. اب موجودہ حکومت نے کہاں پر آ کر چالاکی دکھائی اور قادیانیوں کو اس میں شامل کیا. اقلیتی کمیشن میں شامل ممبران نے رائے دی کہ کمیشن کی خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اقلیتی برادری کو بڑھایا جائے اور کمیشن کا چئیرمین بھی کسی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے جو کہ قادیانی بھی ھو سکتا ھے.... اقلیتی کمیشن کے ممبران کی یہ سمری مذھبی امور کو بھیجی گئی... (پوائنٹ نمبر 1) وفاقی کابینہ نے مذھبی امور کی جانب سے جمع کرائی گئی سمری " نیشنل کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل نو" کی سمری کو اصولی طور پر منظور کرتے ہوئے کمیشن کے لیے اصول متعین کیے کہ کمیشن ممبران کی اکثریت کا تعلق اقلیتی برادری سے ھونا چاہیے. کمیشن کا سربراہ بھی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے (پوائنٹ نمبر 2) اور احمدی کمیونٹی سے بھی ممبران کو کمیشن میں شامل کیا جائے (پوائنٹ نمبر 3) بمطابق روزنامہ 92 نیوز 29 اپریل 2020... جیسے ہی قادیانی اس کمیشن میں شامل ھوتا اور اس نے ھو جانا تھا کیونکہ بدلے میں وہ کچھ ملنے والا تھا جو وہ 1984 میں عدالت سے نہیں لے سکے تھے. کیونکہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتی کو ان کی کھلے عام عبادت کی اجازت دیتا ھے. عبادتگاھوں کے تحفظ کا حکم دیتا ھے یہ ایک عظیم سازش تھی.. 1984 کا کیس اس کی شہادت دیتا ہے کہ قادیانی ھمیشہ کوشش کرتے رھے ہیں کہ ان کو مسلمانوں جیسی عبادت کرنے کی پوری آزادی دی جائے لیکن ھر بار ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.. اور اب اس کمیشن میں شامل ھوتے ہی ان کو سب کچھ مل جاتا جس کے لیے وہ ترلے لے رھے تھے۔

 

This Post is added by the Editor of the Company